بلوچ طلبا کی اغوا نما گرفتاری، اس ریاست میں ہمارے نو آبادیاتی حیثیت کی عکاس ہے
(بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل، پنجاب)
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل، پنجاب کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں سالم بلوچ کی جبری گمشدگی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ طلبا کی اغوا نما گرفتاری، اس ریاست میں ہمارے نوآبادیاتی حیثیت کی عکاس ہے۔ سالم بلوچ پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں شعبہ تاریخ کے سابقہ طالبعلم تھے۔ اور انتہائی محنتی اور مخلص انسان تھے، جنہیں کل رات تقریباً ساڑھے چار کو آبسر، تربت میں اُن کے گھر سے لاپتہ کیا گیا ہے۔ ایک اور نوجوان، اکرام ولد نعیم کو بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
مسلسل آواز اٹھانے اور اس جبر کے خلاف کھڑے ہونے کے باوجود، بلوچستان بھر میں جبری گمشدگیوں کی روش دن بدن تیز ہوتی جا رہی ہے۔ کبھی طالبعلم، تو کبھی بلوچ عورتیں، اس وحشیانہ جبر سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ایک بلوچ، اپنی پوری زندگی اِس ہراسگی کے خوف میں بسر کرتا ہے، کیونکہ اُسے معلوم ہے کہ اُس کے واسطے نہ تو سفر محفوظ ہے، نہ پڑھائی اور نہ ہی اس کا آبائی گاؤں۔ جس کے سبب،بعض طلبا نفسیاتی الجھن اور ہیجانی کیفیت کا شکار ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ طلبا کو لاپتہ کرنا اور یونیورسٹی کیمپسز کے اندر اُن کی ہراسگی و پروفائلنگ ایک وسیع پروگرام کا حصہ ہیں، جس کا مقصد بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ اور یہ وحشیانہ پالیسیاں اس وقت تک نہیں رکھیں گی، جب تک اکھٹے ہوکر اس جبر و ظلم کی مخالفت نہیں کی جائے۔ وقت کی ضرورت یہیں ہے کہ تمام مکتبہ فکر کے لوگ یکمشت ہوکر بلوچ طلبا سمیت تمام لاپتہ افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف کھڑے ہوکر اس کی مزاحمت کریں۔
آخر میں ترجمان کا کہنا تھا کہ ہماری تمام انسانی حقوق کے اداروں، وکلا برادری، صحافیوں اور تمام شعبہِ فکر سے تعلق رکھنے والے دوستوں سے درخواست ہے کہ سالم بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھا کر ہمارا ساتھ دیں، تاکہ جلد از جلد اس کی واپسی ممکن ہو سکے۔