بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں میں ناقابل برداشت اضافہ بلوچ کے وجود کیلئے خطرے کی نشانی ہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب کے ترجمان نے بلوچ طلباء اور عوام کی بلاوجہ جبری طور لاپتہ ہونے کے محرکات میں شدت لانے کی مزمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسے بلوچ نسل کُشی اور تعلیم دشمنی کا عنصر و منصوبہ سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں جبری طور پر لاپتہ طالب علم شمس بلوچ اور کئی بلوچ طلباء جوان پیر و ضعیف سب اس بلوچ دشمن پالیسی کے جزو کا نشانہ بنے ہیں ۔ خیال رہے کہ "شمس بلوچ سکنہ مولہ خضدار جو شعبہ زراعت جامعہ سرگودھا کے پانچویں سمسٹر کا طالب علم ہے"۔ وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنے گھر خضدار گئے تھے ۔ جہان 13 اگست 2023 کی نصف شب 1:30 بجے کچھ گاڑیاں اور اسلحہ بردار نامعلوم افراد ان کے گھر پر دھاوا بول کر انہیں جبری طور پر بندوق کی نوک پر ہراست میں لے کر زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے جو کہ تاحال لاپتہ ہیں۔ ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچ طلباء کی گمشدگیوں کی فضاء کو ہوا دینا بلوچ قوم کو تعلیم و جدیدیت سے پرے رکھنے کی عکاسی کرتا ہے ۔ ریاستی اداروں نے بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس سے متاثرہ شخص سمیت پورا خاندان ازیت میں مبتلا ہے۔ بلوچستان کے تقریباً ہر گھر میں یہ ازیت ناک حقیقت وجود رکھتی ہے۔ ریاستی جبر اور مشکل معاشی حالات کے باوجود بلوچ معاشرے سے نوجوان تعلیم و روشن مستقبل کی تگ و دوگ کیلئے نکلتے ہیں وہ دو قدم ہی چل پڑتے ہیں کہ ریاستی جبر کا نشانہ بنتے ہیں اور پورے سماج و خاندان کو سوگ میں مبتلا کردیتے ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب کے ترجمان نے بیان جاری کرتے انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ طلباء کو گزشتہ چند سالوں سے شدید مشکلات کا سامنا ہے جن میں باقی مسائل سمیت انکی جبری گمشدگی سرِ فہرست ہے۔ بلوچ والدیں ہزاروں دشواریوں کو مات دے کر اپنے بچے جوان کرتے ہیں اور اپنی اور تمام خاندان کو ایک طرف کر کے محض ایک ہی بچے کو تعلیم حاصل کروانے کے اہل ہو جاتے ہیں اور وہ بچہ جب تعلیمی اداروں تک آخر کار بمشکل پہنچ ہی جاتا ہے تو وہاں نسلی تعصب زہنی ہراسگی اور جبری طور پر لاپتہ ہونے کا شکار بن جاتا ہے۔ اس غیر انسانی و غیر قانونی روئیوں نے بلوچ طلباء کی زاتی زندگی اور تعلیمی سفر پر انگنت منفی نقاش چھوڑے ہیں جس کے سبب بہت سارے ہونہار اور علم دوست طلباء قلم و کتاب کی سنگتی چھوڑ کر مایوسی کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ علم و تعلیم اور کتابوں سے فراق کسی بھی نسل و قوم کی تباہی کا پہلا قدم ہے اور یہ ریاست اس مشن کو پایہِ تکمیل پہنچانے کے لئے بھر پور کوشاں ہے۔
جبری گمشدگی بلوچستان میں سنگین مسئلہ ہے اور ریاست کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کا واضح اور ٹھوس ثبوت ہے۔ ریاست یہ روئیہ کئی دہائیوں سے بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رکھتے آ رہی ہے اور ہر روز اس میں مزید شدت لائی جا رہی ہے۔ حالیہ کچھ دنوں میں تقریباً بیس سے زائد طلباء اس غیر قانونی عمل کی نذر ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر اب تک لاپتہ ہیں۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ جسمانی حوالے سے بازیاب ہو چکے ہیں مگر ابھی تک خوف کو حراس اور زہنی کشیدگیوں سے دوچار ہیں۔ کچھ دن قبل اسلام آباد سے بھی دو طلباء اُٹھائے گئے تھے جو بعد میں بازیاب کئیے گئے مگر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس طرح کے ازیت کا شکار ہونے کے بعد انسان قطعاً متوسط نہیں رہ سکتا،کسی نہ کسی طرح اس کے برے اثرات ان پر قائم رہتے ہیں جو زندگی گزارنے کی عمل میں دخل پزیر ہوتے ہیں۔
آخر میں ترجمان نے تمام انسانی حقوق کے علمبردار انسانوں و اداروں کی بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموشی پر سوال اُٹھایا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ خدارا بلوچوں کو بھی انسان تصور کیا جائے انکے حقوق کو بھی انسانی حقوق سمجھ کر تحفظ دینے میں اپنا کردار ادا کیا جائے۔ ساتھ ہی ہم تمام مکتبہ فکر و انسان دوستوں سے بھی درخواست گزار ہیں کہ اس مسئلے کی سنگینی کو سنجیدگی سے لیں اور اس کے خلاف بھر پور مزاحمت کریں اور یہ آواز اٹھائیں کہ بلوچ کو اس کی زمین پر سکون سے رہنے دیا جائے اور اس سے علم و قلم کا حق نہ چھینا جائے۔