‎بی ایس سی پنجاب بطور سیاسی ادارہ، اور ہماری زمہ داریاں - امین بلوچ



 ‎بی ایس سی پنجاب بطور سیاسی ادارہ، اور ہماری زمہ داریاں 

‎تحریر : امین بلوچ 

‎بلوچ سٹوڈنس کونسل پنجاب، کیا ہے؟ اور یہ کیوں بنائی گئی آخر اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کی تنظیمی ساخت کیسی ہے؟ یہ سب بنیادی چیزوں کو بطور ادارہ اپنی اولین پریس ریلیز میں میڈیا کے ذریعے آپ سب قارئین کو آگاہ کر چکے ہیں ۔  میں پھر بھی ایک اختصار کے ساتھ اس کی تعارف کر نے کی جسارت چاہوں گا۔

‎بی ایس سی پنجاب، پنجاب کے یونیورسٹیوں میں  موجود بلوچ طلباء و طالبات کا ایک پرامن سیاسی اور خودمختار ادارہ ہے جو کہ پنجاب کے تمام بلوچ کونسلز کا بھی مجموعہ ہے اور  باقاعدہ طور پر تنظیمی ساخت اور آئین و قانون پر مبنی ادارہ ہے۔ ادارے جب بھی وجود میں آتی ہیں تو ان میں ایک فکر و مقصد ہمیشہ سے منسلک رہتا ہے جس کی بنیاد پر اداروں کی ساخت اور منشور طے کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح لمحہِ حال کے تقاضوں کو نظر رکھتے ہوئے بی ایس سی پنجاب کا بطور ادارہ اولین ترجیح بلوچ طلباء و طالبات کو اس ترقی یافتہ صدی میں یکجاہ، یکمشت کرکے انکی علمی و شعوری نشونما سمیت سیاسی و سماجی تربیت کرنا ہے۔ روحِ زمین کئی ہزار برسوں سے بہت سارے مخلوقات اور بےجان چیزوں کا مسکن ہے۔ بلاشبہ اگر ان تمام مخلوقات میں کوئی ترقی یافتہ ہے تو وہ اشرف المخلوقات ہے یعنی انسان جس نے بے شمار دریافت کیے جو قدرت کی حقیقت کو جانچنے میں لگا ہوا ہے اور دن بدن سائنس، فلسفہ، ادب سمیت  سیاست کی دنیا میں متواتر ترقی کے زینے طے کر رہا ہے۔ باقی جانداروں کے برعکس یہ انسان ہی جس نے ان سب چیزوں کو عمل میں لایا ۔اُن کی محرکات کیا ہو سکتے ہیں ؟ آئیے دیکھتے ہیں وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انسان ہمہ وقت ترقی کی جانب روان دوان ہے اور تاریخ صرف انسان ہی کو کیوں سنہری حرفوں میں یاد رکھتی ہے ؟ اکیسویں صدی کے دانشور مؤرخ دان "ڈاکٹر یوول نوح ہراری" لکھتے ہیں کہ اسکی ایک ہی وجہ ہے وہ ہے باہمی تعلقات باہمی اتحاد و اتفاق یکمشتی یکجہتی ہے جو کہ باقی جانداروں میں اکثر کم ہی پائے جاتے ہیں زیادہ تر وہ منتشر ہیں۔ وہ لکھتے ہیں "ہاتھی انسانوں سے جسامت اور توانائی کی لحاظ سے انتہائی زیادہ طاقتور ہے، شاہین پرواز کر سکتی ہے،  گھوڑا خوب دوڑ سکتا ہے مگر پھر بھی یہ انسان کے تابع ہیں اس کی کافی وجوہات ہوسکتے ہیں جن میں ایک ان میں رشتوں کی عدم موجودگی، غیر منظم ہونا اور باہمی  دوریاں ہیں جس کی وجہ سے انسان صدیوں سے اُن کی استحصال کرتا آ رہا ہے۔ دوسری طرف اگر انسان کی ترقی کی راز پرکھا جائے تو اس میں اس کا منظم ہونا ہاہمی رشتے رکھنا اور سماج و معاشرے کی صورت میں ایک دوسرے سے جڑے رہنا اس میں شامل ہوں گے۔ اگر انسان اِن خصوصیات کو ترک کر دے اتحاد و یکجہتی اور سماجی و معاشرتی رشتوں سے پرے رہنے لگے تو وہ انفرادیت کی شکار ہو کر زیادہ دیر تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ اسی طرح کرہ ارض پر موجود اقوام اگر آپ کے اتحاد و یکمشتی اور قومیت سے انفرادیت کی طرف راغب ہوئے تو یقیناً طاقتور سامراجی قوتیں اُن کے استحصال کرنے سے ہر گز نہ ہچکچائیں گے اور تاریخ میں ایسے غیر منظم اقوام کی مثالیں ہیں جو انہی وجوہات کی بنا پر صفحہ ہستی سے مِٹ چکے ہیں۔ اس لیے ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے قوم کی وجود اور شناخت کی بقاء کے لئے اتحاد ، یکمشتی اور قومیت کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ دیگر صورت میں شناختی بحران معدنیاتی استحصال انسانی حقوق کی پامالیاں سمیت بیسوں مسائل کا مرکز ہو سکتے ہیں۔  جب انسان اپنے بقاء کےلئے سوچنے لگتا ہے یا عملی طور پر اس پر کام کرنا شروع کرتا ہے باہمی اتحاد کو عمل میں لاتا ہے تو یہ سب سیاست کے زمرے میں آتے ہیں اس لئے انسانی معاشرے میں سیاست کی بڑی اہمیت ہے۔

 

‎"سیاست اور اسکی اہمیت" 

‎سیاست انسانی  زندگی کا ایک لازمی جز ہے۔ دنیا کی ہر چیز پر اثر و سوچ رکھتی ہے۔ جیسا کہ لفظ سیاست کا مفہوم و مطلب مختلف مکتبہِ افکار کے لیے الگ ہے۔ لیکن سیاست کو اکثر تمام علوم کی ماں کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا علم ہے جو نہ صرف آپ کو کتابوں میں ملتی ہے بلکہ جیسا کہ میر غوث بخش بزنجو کہتے ہیں علمِ سیاسیات چلتا پھرتا جامعہ (یونیورسٹی) ہے جس سے آپ نصاب سے نہیں بلکہ جہد و عمل سے سیکھتے رہتے ہیں"۔ علم سیاست معاشروں کی تشکیل، عوامی پالیسیوں کے تعین، تنازعات کو حل کرنے اور افراد کے برادریوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ انسانی معاملات پر اس کے وسیع دائرہ کار اور اثرات نے اسے ”ماں“ یا بنیادی نظم و ضبط سے پکارا ہے۔اسی لئے کہتے ہیں کہ اگر آپ کو سیاست سے دلچسپی نہیں ہے۔ تو سیاست خودبخود آپ کے گھر پہنچ جائے گی۔ آپ کا ہر عمل سیاست ہے شاہد آپ انہیں سیاست کا نام دینے سے کتراتے ہوں گے مگر حقیقت یہی ہے کہ انسان قدرتی طور سیاسی ہے جس کی وجہ سے اسے سیاسی جانور کا نام دیا جاتا ہے۔ تاریخ کا تقاضا ہے کہ ہمارا فکری وجدان اور سیاسی شعور اس حد تک حساس اور بیدار ہونا چاہیے کہ ہم حالات و واقعات کا صحیح تجزیہ کرنے کے اہل ہوں۔ ورنہ اس تیز رفتار ترقی یافتہ دنیا کی بھاگ دوڑ میں پیچھے رہ سکتے ہیں۔ ہمیں سیاسی طور پر ہر طرح بالغ ہونے کی ضرورت ہے آ ج پوری دنیا آپس میں  مدمقابل ہے کتابوں کی صدی ہے سوچ اور فکر کی صدی ہے سائنس کی صدی ہے یہ ایٹم بموں کی صدی ہے یہ پراکسی جنگوں کا دور ہے بلکہ نفسیاتی محاظ پر لڑی جانے والی جنگوں کی صدی ہے اس میں"غیر سیاسی ہو کر رہنا عنقریب ناممکن ہی ہے۔ مقتدر قوتیں اجتماعی مفادات اور قومی و انسانی حقوق کو پامال کیے جارہے ہیں ۔ یقیناً اس غیر یقینی کیفیت نے معاشرے کے ہر فرد وشخص اور قوم پر نہایت منفی اثر ڈالا ہے ایسے وقت میں میل ملاپ، بات چیت اور اتحاد و سالمیت کے ساتھ رہنے کی سعی کرنا ،مواصلات و تعلقات کی افادیت انسانی بنیادوں پر قائم رکھنا اور سیاست پر عبور حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ایسی صورتحال میں معتدل سیاسی افکار و نظریات سے لیس افراد پورے قوم اور وطن کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ ایک سیاسی سوچ رکھنے والے لیڈر سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل کو ممکن بنا سکتی ہے جس کی بنا پر آگے جا کر قومی و اجتماعی مسائل پر سوال اٹھا ان کی حل طلبی کی جاسکتی ہے۔ 

 

‎"سیاسی اصطلاحات اور سیاسی تبدیلیاں؛ " 

‎(اینڈریو ہیووڈ کی نایاب کتاب، "سیاسی نظریات"

‎, ایک تعارف) میں بہت سارے سیاسی اصطلاحات زیر بحث لاتی ہے کوشش یہی ہے صرف ان اصلاحات کے نام لکھوں جو ہمارے زمین ، مسائل اور حالات کے تقاضے ہوں یہ کچھ ایسے اصطلاحات ہیں آج کے اس دور میں ہر پڑھنے اور سیکھنے والوں کو جاننا چاہیے، بلاشبہ، علم کا پیغمبر ارسطو کا خیال ہے کہ انسان ایک "سیاسی جانور" ہے وہ قوت گویائی اور اخلاقی استدلال کے ساتھ ایک سماجی مخلوق ہے۔ بالعموم سیاست میں عبور حاصل ہونے کےلئے سماجی مخلوق، کے اخلاقی استدلال اور تنظیم کاری کےلئے سیاسی اصطلاحات کے صحیح مفہوم کو جاننا بے حد ضروری ہے۔ یہ وہ اصطلاحات ہیں جن کے مطابق سیاست گردش کر رہی  ہے۔ "اشتراکیت، سوشلزم، سرمایہ داری، نیشنلزم، اور کچھ اخلاقی استدلال، اور سیاسی رویے کےلئے جیسا کہ، ریڈیکلزم، سامراجیت، اعتدال پسندی، استعماریت، لبرلزم، نوآبادیاتی نظام ، اور قدامت پسندی تقریباً روح زمین پر بسنے والے اقوام کی سیاست انہی "سیاسی رویے اور "سیاسی اصطلاحات" کے گرد گھومتی ہے بحیثیت علم کے طلبگار ہمیں ان سب کا عمومی مفہوم آنا چاہیے دیگر صورت سیاست کو سمجھنے میں مشکلات سے دو چار ہونا پڑے گا۔ خیال رہے کہ سیاست تبدیلی کا نام ہے آئے روز نئی سیاسی ادارے اور سیاسی رویئے یا نئی سیاسی اصطلاح دریافت ہوتے جارہے ہیں جب آپ ایک سیاسی مخلوق ہیں پھر آپ کو بھی اسی کے مطابق چلنے اور سیکھنے کی سعی کرنا پڑے گا جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سامراجیوں نے نوآبادیاتی نظام کو ختم نہیں کیا بلکہ ایک نیا روپ دھار لیا ہے جس کا نام "نیانوآبادیاتی" نظام ہے اس نظام کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ سامراجیوں کو مجبوراً براہ راست قبضہ کرنے کی پرانی پالیسی کو بدلنا پڑا یہ کم و بیش سب جگہوں پر ہوا ہے کہتے ہیں کہ اس طریقے میں ظالم سامراج کا انحصار اپنے ایجنٹوں پر ہے دوسرے ممالک پر اپنی من مانی کا الیکشن کروا کے پھر ان پر حکمرانی کرتے ہیں پھر ان ممالک میں اپنے لئے فوجی اڈے بنائیں ضرورت کے وقت ان کو استعمال میں لائیں اسی طرح سوویت یونین کے منہدم کے بعد امریکہ نے پاکستان سمیت عرب ممالک میں اس نیانوآبادیاتی طرز عمل کو بھرپور استعمال کیا۔ 

 

 

"‎سیاسی ادارے کی اہمیت اور ضرورت" 

‎دراصل، تنظیمی ماحول لوگوں کی فردی صلاحیتوں خود اعتمادی، سماجی برتاؤ، بصیرت، قیادت، سیاسی سوجھ بوجھ، مدیریت، مدبرانہ صلاحیت انسانوں اور قوموں کی پہچان کو بہتر بنانے نیز سماجی خدمت، معاشرے کی بہتری کا شعور، مختلف صلاحیتوں کے حامل لوگوں کے ہمراہ کام کرنا اور دیگر مہارتوں کو حلا بخشنے کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔دنیا میں امیر اقوام زیادہ تر اس وجہ سے امیر ہیں کہ انہوں نے پچھلے سینکڑوں سالوں کے دوران کسی نہ کسی مقام پر مساوات بخش اداروں کو پروان چڑھانے کا اہتمام کر لیا ہو گا-یقینا وہ ادارے صالح داروں کے عمل کے زریعے قائم رہے ہیں۔ آج جتنے بھی ممالک دنیا میں ترقی کر چکے ہیں سب سے پہلے انہوں بے اپنے لیے مظبوط سیاسی اور معاشی ادارے قائم کئے ہیں۔ اس لئے کامیاب ادارے اقوام کی کامیابی کے ضامن ہیں۔ ہمیں بھی اپنے سیاسی اداروں کی مضبوطی کےلئے دن رات کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ مضبوط سیاسی ادارہ کامیاب معاشی ادارہ بنا سکتی ہے۔ اگر ہم اپنے قوم کے مستقبل معماروں کو شعور یافتہ اور سیاسی طورپر پختہ دیکھنا چاہتے ہیں جو ہر بات کو سُن کر اس پر جذباتی ہونے کی بجائے صبر و تحمل، سوچ سمجھ کر علم مطالعہ اور شعور کے ترازو میں تول کر مسائل کا حل ڈھونڈنے کے اہل ہوں تو یقینی طور پر اُنہیں ایک سیاسی طلباء تنظیم سے وابستگی کی ضرورت ہوتی ہے تبھی وہ مسائل و پیچدگیوں کو ان زاویوں سے پرکھنے کے قابل ہوں گے۔ سیاسی فقدان کو ختم کرنے کےلئے دوستوں نے بی ایس سی پنجاب کو تشکیل دیکر ایک پرامن سیاسی طلباء تنظیم کا اہتمام کیا ہے اب یہ نوجوانوں اوپر زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے تنظیم کی مضبوطی کےلئے کیا سیاسی تبدیلیاں عمل میں لاتی ہیں۔ 

 

‎"بحیثیت بلوچ طلباء ہماری زمہ داریاں" 

‎آج ہمارے بلوچ  قوم اور انکے زمین کے کیا تقاضے ہیں ؟ سیاسی ضروریات کیا ہیں ؟ یہ سب باتیں اب فقط بیانات، فیسبک، انسٹگرام، ٹویٹر یہاں تک کہ خطبات وجلسوں میں کرنے کے نہیں ہیں بلکہ قوم کے مستقبل معمار اور طلباء رہنماؤں کو بڑی بصیرت کے ساتھ شعوری طور پر سوچنا ہوگا تبھی جاکر کوئی فیصلہ کرنا مناسب ٹھرتا ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشیں رہے کہ انسانی فکر اور نظریہ میں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ اس کے سیاسی شعور میں کس حدتک تک توازن و اعتدال ہے۔ ایک طلباء رہنماء میں سیاسی شعور کتنی ہے خدانخواستہ اگر ان کے ذہن میں سیاسی شعور نہیں ہے پھر وہ اپنے ساتھ تمام ساتھیوں کو تباہی کی طرف لے ڈوبی گی کیونکہ ٹیکنالوجی کے صدی میں ہم غیر سیاسی ہوتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی کوشش کر رہے تو میرے خیال سے اس طرح کے نابالغ انسان کو روح زمین برداشت نہیں کر پائیگی۔ اگر ہم تہذیب یافتہ دنیا میں اپنے ظاہرانہ نظر دوڑائیں تو ہمیں باشعور طلباء تنظیموں کی فہرست ملینگے آج آکسفورڈ جیسے یونیورسٹی میں طلباء تنظیمیں ظہور پذیر ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا  ہے کہ طلباء سیاست اقوام کیلئے کتنا لازم و ملزوم ہے۔ تاریخی طور پر ہم اپنے خطے کے طول و ارض پر نظر دوڑائیں ڈھاکہ یونیورسٹی کے کتابی پیغمبروں کی سیاسی تاریخ روز روشن کی طرح عیاں ہے یا ایران میں شاہ کے حکومت کو الٹنے میں قلم اور کتاب یعنی طلباء کا کیا کردار تھا ؟ تاریخ کو پڑھنے کے بعد انسان جاکر اپنے لئے بھی  سیاسی تاریخ بنانے کی کوشش کرتا ہے  ان سب باتوں سے علم ہوتا ہے سیاست یکجہتی کا نام ہے سیاست ادارہ جاتی کا نام ہے سیاست انفرادی سے نکل کر اجتماعیت کا نام ہے۔ آئین یکمشت اور دست بدست ہوکر سیاسی تاریخ بناتے ہیں آئیں ایک دفعہ پھر اپنے خطے کو امن کا گہوارہ بناتے ہیں آئیں اس خطے کو ہر طرح کے منافقت، ظلم و جبر، مذہبی جنونیت، ہر طرح کے نابالغ حرکات سے پاک کرتے ہیں اور کتاب اور قلم کے رہنمائی سے ہر چیز کا جائزہ لیتے ہیں۔

Previous Post Next Post